Pages

Sunday, January 18, 2015

سلیم احمد - مشرق

بات مشرق و مغرب کی ہو رہی تھی تو پیشِ خدمت ہے سلیم احمد کی طویل نظم ’مشرق‘ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا رِ سیاہ‘ ۔ یقیناً ایک ایسا ہولناک اور عبرت انگیز مرقع جس کی نظیر اردو شاعری میں شاید ہی مل سکے۔ اہل  نظر اور شعری استعاروں سے شغف رکھنے والے دوستوں کی خدمت میں۔

  (عاصم بخشی) 
                                                                                       

     پالتی مار کے اک سمت ہے وحشت بیٹھی
    منہ پھلائے ہوئے اک سمت عداوت بیٹھی

بغض اک کونے میں بیٹھا ہے جگالی کے لئے
منہ بنائے ہے ہوس کاسئہ خالی کے لئے

آگ کھاتی ہے وہ اک سمت میں نفرت بیٹھی

رال ٹپکاتی ہے اک سمت شقاوت بیٹھی
جہل اک سمت میں کھاتا ہے وہ دانش کے کباب
کاسئہ سر میں اُدھر ظلم وہ پیتا ہے شراب
جام پر جام پلاتا ہے حسد کو کینہ
بے حیائی وہ دکھاتی ہے کمر اور سینہ
ران سہلاتی ہے عریانیِ فطرت اپنی
چھاتیاں ملتی ہے اک سمت وہ شہوت اپنی
ایک کونے میں نظر جس سے اِبا کرتی ہے
دنیاداری کسی کتے سے زنا کرتی ہے
اپنی فطرت کی دنائت پہ گواہی لے کر
زہر کے جام لنڈھاتی ہے جراہی لے کر
کفر وہ بیچ میں مسند پہ ڈٹا بیٹھا ہے
حاکمِ وقت کی مانند تنا بیٹھا ہے
سیر ہوتی نہیں اک ایسی طلب جاری ہے
جام گردش میں ہیں اور رقصِ طرب جاری ہے
غیرتیں ساز بجاتی ہیں دلوں میں رو کر
عصمتیں بھاؤ بتاتی ہیں برہنہ ہو کر
رقص میں جاں پہ شرافت کی عجب تنگی ہے
ضرب کوڑوں کی پڑی ہے سو کمر ننگی ہے
اشک آنکھوں میں سنبھلتا نہیں بہتا بھی نہیں
سر پہ عزت کے تقدس کا دوپٹا بھی نہیں
اور وہ اس کے مقابل میں عیاذاً باللہ
دیکھ کر جس کو تڑپتی ہے جراحت سے نگاہ
رحلِ تقدیر پہ قرآنِ جلی رکھا ہے
طشتِ زریں میں سرِ ابنِ علی رکھا ہے

No comments: